کس لیے پھرتا ہوں تنہا نہ کسی نے پوچھا
کیوں کہیں جی نہیں لگتا نہ کسی نے پوچھا
ذہن آوارہ دل آوارہ نظر آوارہ
کیسے اس حال کو پہنچا نہ کسی نے پوچھا
کون ہے آیا ہے کس دیس سے کس سے ملنے
سب نے دیکھا مگر اتنا نہ کسی نے پوچھا
جانے کیا کہتے اگر پوچھتا احوال کوئی
خیر یہ بھی ہوا اچھا نہ کسی نے پوچھا
بے تعلق ہوئے روحیؔ عجب انداز سے لوگ
کس پہ کیا حادثہ گزرا نہ کسی نے پوچھا
غزل
کس لیے پھرتا ہوں تنہا نہ کسی نے پوچھا
روحی کنجاہی