کس کو معلوم تھا اک روز کہ یوں ہونا تھا
مستقل ضبط کا انجام جنوں ہونا تھا
عمر بھر زیست کے کاغذ پہ مشقت لکھنا
یعنی اک شخص کا اس طرح بھی خوں ہونا تھا
بے حسی ملتی مجھے شہر میں جینے کے لیے
یا مرا دست ہنر دست فسوں ہونا تھا
فاصلہ قرب کی ساعت میں سمٹ سکتا تھا
سر جھکا تھا تو ترا دل بھی نگوں ہونا تھا
بنتے رہنا تھا رئیسؔ آس کے تانے بانے
کچھ تو جینے کے لیے وجہ سکوں ہونا تھا

غزل
کس کو معلوم تھا اک روز کہ یوں ہونا تھا
رئیس الدین رئیس