کس کو بتاتے کس سے چھپاتے سراغ دل
چپ سادھ لی ہے زخم دکھایا نہ داغ دل
کیسے کریں بیان غم جاں کی داستاں
اے کاش گل کھلائے ہمارا یہ باغ دل
گزرے ہماری زیست کے ایام اس طرح
لبریز آنسوؤں سے ہے گویا ایاغ دل
جب راکھ بن گئے تو کہا یہ حریف نے
جل جل کے وہ جلاتے رہے ہیں چراغ دل
جس سے ملے طویل زمانہ گزر گیا
شاید اسی کے ذہن میں ہو کچھ سراغ دل
چاہت کی اب تو کوئی بھی حسرت نہیں رہی
سرسبز اس کی یاد سے پھر بھی ہے باغ دل
رکھتی نہیں سبیلہؔ کبھی عیب پر نظر
مصروف پیار میں رہا اس کا فراغ دل

غزل
کس کو بتاتے کس سے چھپاتے سراغ دل
سبیلہ انعام صدیقی