کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دے جو سبو ٹوٹ گیا
کیجو اس زلف کو مشاط سمجھ کر شانہ
لاکھ دل ٹوٹے اگر ایک وہ مو ٹوٹ گیا
کچھ خبر ہے تجھے کہتے ہیں ترے زخمی کا
آج پھر چاک کا سینے کے رفو ٹوٹ گیا
فلک اس دل شکنی کا تو مزا دیکھے گا
کوئی دل گر کبھی اے عربدہ جو ٹوٹ گیا
تھی مریدوں کے لیے قلب کے صدمے کی دلیل
شیخ کا رقص میں سم پر جو وضو ٹوٹ گیا
دھیان اس شیشے کا رکھنا کہ نہ ہوگا پیوند
دل مری جان اگر یک سر مو ٹوٹ گیا
اس خود آرا کے رہا ہاتھ میں نت آئینہ
غم سے آئینہ دل ہائے نہ تو ٹوٹ گیا
محتسب نے تو خرابات میں کی خوں ریزی
پر سر رند پہ شب مے کا کدو ٹوٹ گیا
دیکھنا تار محبت کہ ہے مشکل پھر سانٹھ
رشتۂ دوستی اے لطفؔ کبھو ٹوٹ گیا
غزل
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
مرزا علی لطف