EN हिंदी
کس کس کے آنسو پوچھو گے اور کس کس کو بہلاؤ گے | شیح شیری
kis kis ke aansu puchhoge aur kis kis ko bahlaoge

غزل

کس کس کے آنسو پوچھو گے اور کس کس کو بہلاؤ گے

شاہد عشقی

;

کس کس کے آنسو پوچھو گے اور کس کس کو بہلاؤ گے
اک دن آئے گا تم بھی شامل ان میں ہو جاؤ گے

رنگ ہوا میں تیر رہے ہیں تتلی کا بہروپ لیے
سارے رنگ اتر جائیں گے تم گر ہاتھ لگاؤ گے

عمر عزیز گنوائی اپنی سایوں کا پیچھا کرتے
سائے کس کے ہاتھ آئے ہیں اور تم بھی کیا پاؤ گے

چوتھے کھونٹ کو جا تو رہے ہو لیکن یہ وہ رستہ ہے
تم نے اگر مڑ کر دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے

سیل حوادث میں ہم سب اب پتھر بن کر زندہ ہیں
کیسے شعر کہو گے عشقیؔ کس کو شعر سناؤ گے