کس کس کے آنسو پوچھو گے اور کس کس کو بہلاؤ گے
اک دن آئے گا تم بھی شامل ان میں ہو جاؤ گے
رنگ ہوا میں تیر رہے ہیں تتلی کا بہروپ لیے
سارے رنگ اتر جائیں گے تم گر ہاتھ لگاؤ گے
عمر عزیز گنوائی اپنی سایوں کا پیچھا کرتے
سائے کس کے ہاتھ آئے ہیں اور تم بھی کیا پاؤ گے
چوتھے کھونٹ کو جا تو رہے ہو لیکن یہ وہ رستہ ہے
تم نے اگر مڑ کر دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے
سیل حوادث میں ہم سب اب پتھر بن کر زندہ ہیں
کیسے شعر کہو گے عشقیؔ کس کو شعر سناؤ گے
غزل
کس کس کے آنسو پوچھو گے اور کس کس کو بہلاؤ گے
شاہد عشقی