کس کی اس تک رسائی ہوتی ہے
ہاں مگر جس کی آئی ہوتی ہے
یار ہم سے سیاہ بختوں کی
زلف تک کب رسائی ہوتی ہے
خوب مل کر گلے سے رو لینا
اس سے دل کی صفائی ہوتی ہے
ڈوبتی ہے ہماری کشتئ دل
آپ سے آشنائی ہوتی ہے
شور ہے الفراق کا ہر دم
ہم سے ان سے جدائی ہوتی ہے
لشکر غم کی کشور دل پر
رات دن اب چڑھائی ہوتی ہے
ان کی محفل میں جاتے ڈرتا ہوں
واں لگائی بجھائی ہوتی ہے
اس کے در پر حقیرؔ تم بھی چلو
وہیں مشکل کشائی ہوتی ہے
غزل
کس کی اس تک رسائی ہوتی ہے
حقیر