کس کے جلووں نے دکھائی وادئ الفت مجھے
کھینچے ہے اک بھولی بھالی سانولی صورت مجھے
میکدے سے اٹھ کے کل معبد میں جا بیٹھا تھا میں
غیروں کی مجلس میں یارو لے گئی وحشت مجھے
کٹتا ہے دن اس کے ہی دل کش خیالوں میں سدا
شب ملے ہے خواب میں کوئی پری طلعت مجھے
حاصل عمر رواں داغ تمنا ہے فقط
عشق نرگس میں رہی ہے خواہش وصلت مجھے
اے جلالیؔ بارہا ڈھونڈا تجھے ویرانوں میں
کب میسر ہوتی ہے وحشی تری صحبت مجھے

غزل
کس کے جلووں نے دکھائی وادئ الفت مجھے
رؤف یاسین جلالی