کس کے چمکے چاند سے رخسار قیصر باغ میں
چاندنی ہے سایۂ دیوار قیصر باغ میں
فی الحقیقت یہ بھی کم گلزار جنت سے نہیں
حوریں پھرتی ہیں سر بازار قیصر باغ میں
پاؤں کا یاں ذکر کیسا صاف ہے ایسی زمیں
دل پھسلتے ہیں دم رفتار قیصر باغ میں
زیر شاخ گل اگر سبزہ کبھی سونے لگا
شور بلبل نے کیا بیدار قیصر باغ میں
اتنے پتے بھی نہ ہوں گے گلشن فردوس میں
جس قدر پھولوں کے ہیں انبار قیصر باغ میں
تشنگان شوق ہیں شیریں لبوں کے میہماں
بٹ رہا ہے شربت دیدار قیصر باغ میں
قطرے شبنم کے رگ گل پر دکھاتے ہیں بہار
گندھ رہے ہیں موتیوں کے ہار قیصر باغ میں
سایۂ بال ہما کیا ڈھونڈھتا ہے اے امیرؔ
بیٹھ زیر سایۂ دیوار قیصر باغ میں
غزل
کس کے چمکے چاند سے رخسار قیصر باغ میں
امیر مینائی