کس کے آنگن سے گزر کر یہ ہوا آتی ہے
سسکیاں لیتی ہوئی بوئے حنا آتی ہے
کیا کمی ہے کہ نگاہوں سے گرے جاتے ہو
دل میں گھر کرنے کی تم کو تو ادا آتی ہے
دل کی باتیں مجھے کہنی نہیں آتیں لیکن
یہی کیا کم ہے تری حمد و ثنا آتی ہے
کھا رہی ہے تن بیمار کو اندر اندر
کس مسیحا کی دکاں سے یہ دوا آتی ہے
کس جگہ رک کے ذرا دیر کو دم لے کوئی
کہیں سایہ ہے شجر کا نہ سر آتی ہے
اب بہر گام بڑھی جاتی ہے تکلیف سفر
اب مسافر کو بہت یاد خدا آتی ہے
مدتوں سنگ مصیبت کی رگڑ کھاتا ہے
تب کہیں آئینۂ دل میں جلا آتی ہے
ایک حمام میں گویا کہ سبھی ننگے ہیں
شرم آتی ہے نہ دنیا کو حیا آتی ہے
اب تو اس کار گہہ شیشہ گری میں ماہرؔ
ہر نفس تازہ چھناکے کی صدا آتی ہے

غزل
کس کے آنگن سے گزر کر یہ ہوا آتی ہے
ماہر عبدالحی