کس کا بھید کہاں کی قسمت پگلے کس جنجال میں ہے
بازی ہے اک سادہ کاغذ سارا کرتب چال میں ہے
ایک رہیں یا دو ہو جائیں رسوائی ہر حال میں ہے
جیون روپ کی ساری شوبھا جیون کے جنجال میں ہے
تجھ سے بچھڑ کر تجھ سے مل کر دونوں موسم دیکھ لیے
بات جہاں تھی اب بھی وہیں ہے فرق ذرا سا حال میں ہے
آخر اوپری ہمدردی کو رنگ تو اک دن لانا تھا
بات تھی پہلے چند گھروں تک اب دنیا بھونچال میں ہے
تم اپنی آنکھوں کی لالی پھولوں میں تقسیم کرو
میرے دل کا حال نہ پوچھو رہنے دو جس حال میں ہے
جیون بھیدن کی چنتا چھوڑو آؤ کچھ اس پر بات کریں
ہم دھرتی کے پھندے میں ہیں دھرتی کس کے جال میں ہے
انجمؔ پیار جسے کہتے ہیں اس کے ڈھنگ نیارے ہیں
چپ میں ہے سکھ چین نہ کوئی راحت قیل و قال میں ہے
غزل
کس کا بھید کہاں کی قسمت پگلے کس جنجال میں ہے
انجم فوقی بدایونی