کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلان جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوست گلو جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا بے خوف و خطر اس ہاتھ پہ سر اس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارۂ بام ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے وہ سرمۂ چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا ہم رنگ گل طناز کیا
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا در باز کیا
غزل
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا
فیض احمد فیض