کس بری ساعت سے خط لے کر گیا
نامہ بر اب تک نہ آیا مر گیا
جاتے ہی دل اس گلی میں مر گیا
مرنے والا بے وفائی کر گیا
دل تو جانے کو گیا لیکن مجھے
اس بھری محفل میں رسوا کر گیا
حسرتیں تھیں جینے والی جی گئیں
مرنے والا تھا دل اپنا مر گیا
غم کی لذت ابتدا میں تھی مگر
اس قدر کھایا کہ اب جی بھر گیا
ہر نوالہ اس کا اب تو تلخ ہے
عمر نعمت تھی مگر جی بھر گیا
کیا کہوں احوال اٹھتی بزم کا
پہلے مینا بعد کو ساغر گیا
دل نے اک دن بھی نہ دیکھا تجھ کو آہ
اس گلی تک خواب میں اکثر گیا
مرنے والے دل تجھے اب کیا کہوں
خیر بخشا میں نے جو کچھ کر گیا
کیا کہوں ان آنسوؤں کا زور و شور
آنکھیں جھپکی تھیں کہ چلو بھر گیا
دل گلہ کرتا تھا خوب اس شوخ کا
تذکرہ محشر کا سن کر ڈر گیا
جس جگہ دارا کو بھیجا تھا وہیں
کچھ دنوں کے بعد اسکندر گیا
جس کا کہلاتا ہے واں تھی کیا کمی
اے گدا کیوں مانگنے دردر گیا
دل نے سبقت کی حواس و صبر پر
پہلے سلطاں بعد کو لشکر گیا
منہ سے نکلا تھا کہ پہنچا عرش پر
نالۂ دل نام اونچا کر گیا
دل یہ امڈا مے سے خالی دیکھ کر
جام اشکوں سے لبالب بھر گیا
گر نہ جائے خاک پر قطرہ کوئی
بس بس اے ساقی کہ ساغر بھر گیا
مے کشو ماتم کرو اب شادؔ کا
ہائے کیا مے خوار رحلت کر گیا
شادؔ کیا کچھ کم ہیں دو کم ساٹھ سال
زندگی سے بس دل اپنا بھر گیا
غزل
کس بری ساعت سے خط لے کر گیا
شاد عظیم آبادی