کنارے توڑ کے باہر نکل گیا دریا
لکیر چھوڑ کے یہ کس طرف چلا دریا
اب اس سے پہلے سمندر سے جا کے مل پاتا
خود اپنی پیاس میں ہی غرق ہو گیا دریا
مرے بدن کا سمندر تو خشک ہوتا گیا
رواں دواں ہی رہا میری سوچ کا دریا
اسے کبھی نہ سمندر کی جستجو ہوتی
تہوں میں اپنی اتر کر جو دیکھتا دریا
خلوص ہے یہ تو اس کا کہاں کی مجبوری
رہائی کا ہے سمندر کو راستہ دریا
اسے میں دور ہی سے دیکھتا رہا ثانیؔ
جو آج پانی میں اترا ہوں تو کھلا دریا
غزل
کنارے توڑ کے باہر نکل گیا دریا
مہندر کمار ثانی