EN हिंदी
کنارے پر سمندر ڈوبتے ہیں | شیح شیری
kinare par samundar Dubte hain

غزل

کنارے پر سمندر ڈوبتے ہیں

منظور دیپالپوری

;

کنارے پر سمندر ڈوبتے ہیں
چلو کچھ اور اندر ڈوبتے ہیں

اسے ہم راستہ کہتے ہیں اپنا
جہاں لشکر کے لشکر ڈوبتے ہیں

ترے شانے کو دریا چھو رہا ہے
ہمارے تو یہاں سر ڈوبتے ہیں

تری غزلوں کو پڑھ کر سوچتا ہوں
تری آنکھوں میں منظر ڈوبتے ہیں

تری قربت سبب ہے ڈوبنے کا
کنارے پر بنے گھر ڈوبتے ہیں

وہاں منظور ہم کو تیرنا ہے
جہاں اکثر سخنور ڈوبتے ہیں