EN हिंदी
کن سرابوں کا مقدر ہوئیں آنکھیں میری | شیح شیری
kin sarabon ka muqaddar huin aankhen meri

غزل

کن سرابوں کا مقدر ہوئیں آنکھیں میری

راشد طراز

;

کن سرابوں کا مقدر ہوئیں آنکھیں میری
جستجو کر کے جو پتھر ہوئیں آنکھیں میری

کچھ نہ تھم پایا ہے اس سیل رواں کے آگے
کیسے اشکوں کا سمندر ہوئیں آنکھیں میری

خون رونے کے سوا کچھ نہیں باقی ان میں
کیسے آسودۂ خنجر ہوئیں آنکھیں میری

کبھی انوار کو مل پاتا نہیں ان میں فروغ
کیا زمیں چھوڑ کے بنجر ہوئیں آنکھیں میری

تیرے عرفان کی یہ کون سی منزل ہے خدا
پھر نئے خاکوں کا محور ہوئیں آنکھیں میری

روز اک حادثہ اس میں بھی سما جاتا ہے
جیتے جی کیسا یہ محشر ہوئیں آنکھیں میری

مٹ گئے عکس بھی یادوں کی طرح ان میں طرازؔ
نا مرادی کا وہ منظر ہوئیں آنکھیں میری