کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم
اے مری چشم گنہ گار تجھے کیا معلوم
حال دل قابل اظہار نہیں ہے ورنہ
میرے چپ رہنے کا کچھ اور نہیں ہے مفہوم
اجنبی ہوں میں ترے شہر کرم میں اے دوست
کیا ہے اس شہر کا دستور مجھے کیا معلوم
دل خوش فہم یہ کہتا تھا بلا لے گا کوئی
جب میں اٹھا تھا تری بزم سے ہو کر مغموم
وہ شب ہجر وہ آثار سحر اور دل میں
ڈوبتی ٹوٹتی مٹتی ہوئی یادوں کا ہجوم
ایک پیکار ہے خود سے جسے کہتے ہیں وفا
حسن ناکردہ تمنا کو وفا کیا معلوم
طالب داد سخن آپ بھی ہیں کس سے سلیمؔ
وہ کہ ہیں جس کی خموشی میں بھی لاکھوں مفہوم
غزل
کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم
سلیم احمد