کن موسموں کے یارو ہم خواب دیکھتے ہیں
جنگل پہاڑ دریا تالاب دیکھتے ہیں
اس آسماں سے آگے اک اور آسماں پر
مہتاب سے جدا اک مہتاب دیکھتے ہیں
کل جس جگہ پڑا تھا پانی کا کال ہم پر
آج اس جگہ لہو کا سیلاب دیکھتے ہیں
اس گل پہ آ رہی ہیں سو طرح کی بہاریں
ہم بھی ہزار رنگوں کے خواب دیکھتے ہیں
دریا حساب و حد میں اپنی رواں دواں ہے
کچھ لوگ ہیں کہ اس میں گرداب دیکھتے ہیں
اے بے ہنر سنبھل کر چل راہ شاعری میں
فن سخن کے ماہر احباب دیکھتے ہیں
غزل
کن موسموں کے یارو ہم خواب دیکھتے ہیں
مہتاب حیدر نقوی

