کیجئے رندی کا پیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
لیجئے اک گھونٹ شیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
شیشۂ خالی نہ دیکھا ساقیا کچھ غم نہیں
تاک کے ریشہ بہ ریشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
جلوۂ مستانہ سے شیریں کے ہر اک انگ میں
غور سے ٹک دیکھ تیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
اس شکار افگن کی چشم مست سے لے مے کشو
ہو گیا مے خانہ بیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
مصرع ثروتؔ نے ؔجوشش مست و دیوانہ کیا
دشت در دشت بیشہ بیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب

غزل
کیجئے رندی کا پیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
جوشش عظیم آبادی