EN हिंदी
کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی | شیح شیری
ki tu ne lab-kushai to kis ke huzur ki

غزل

کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی

ندیم فاضلی

;

کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی
اب کرچیاں سمیٹ دل ناصبور کی

کس کے لہو میں شام نہا کر ہے سرخ رو
کس نے چکائی خون سے قیمت غرور کی

صدیوں سے کس کی قبر پہ گریہ کناں ہے رات
لیٹا ہے کون اوڑھ کے چادر یہ نور کی

علم و کمال آپ کی میراث کیا کہا
پرتیں نہ کھولیے میرے تحت الشعور کی

تقدیر جتنا چاہے مجھے در بہ در کرے
مٹی سے خو نہ جائے گی برہان پور کی

پھر با ادب ہیں لفظ و معانی مرے حضور
پھر فوج اتر رہی ہے خیال طیور کی

تفہیم آنجناب یہ غالبؔ کا شعر ہے
کچھ ان کہی بتائیے بین السطور کی

ہم خود سے ہم کلام ہوئے کم نہیں ندیمؔ
جاویں کلیم سیر کریں کوہ طور کی