کی تھی جس کو شکل محبوبی عطا
سر اسی پتھر سے زخمی ہو گیا
ہر گھڑی رہتا تھا آئینہ بدست
خود ستائی کے سوا کرتا بھی کیا
ہو گیا جب اس کو ادراک جہاں
توڑ کر آئینہ اس نے رکھ دیا
وہ ہوا ہے پیرہن کا یوں اسیر
کھل کے اب ہنسنا بھی مشکل ہو گیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو اس کا وصف
آدمی تخلیق و تکمیل خدا
اس کو باہر کی خبر کیا بیچ میں
کھینچ کر بیٹھا ہوا ہے دائرہ
ہے یہاں نا پید خط مستقیم
زندگی ہے پیچ و خم کا سلسلہ
غزل
کی تھی جس کو شکل محبوبی عطا (ردیف .. ہ)
ادیب سہیل