کدھر رواں ہے مرا کارواں نہیں معلوم
نصیب لے کے چلا ہے کہاں نہیں معلوم
ہمارا خرمن دل بھی تو جل چکا یا رب
گرے گی اب کہاں برق تپاں نہیں معلوم
بس اک نگاہ محبت سے ان کو دیکھا تھا
ہیں مجھ سے کس لئے وہ بد گماں نہیں معلوم
بنے ہیں آج وہی منتظم گلستاں کے
کہ جن کو فرق بہار و خزاں نہیں معلوم
عدو تھی برق نہ دشمن تھا باغباں اپنا
جلایا کس نے مرا آشیاں نہیں معلوم
بہار مجھ سے ہے میں پاسبان گلشن ہوں
مرا مقام تجھے باغباں نہیں معلوم
دل امیدؔ بھی تھا جس کے ساتھ ساتھ رواں
کہاں پہ لٹ گیا وہ کارواں نہیں معلوم
غزل
کدھر رواں ہے مرا کارواں نہیں معلوم
رگھوناتھ سہائے