EN हिंदी
کدھر کا تھا کدھر کا ہو گیا ہوں | شیح شیری
kidhar ka tha kidhar ka ho gaya hun

غزل

کدھر کا تھا کدھر کا ہو گیا ہوں

عازم کوہلی

;

کدھر کا تھا کدھر کا ہو گیا ہوں
مسافر کس سفر کا ہو گیا ہوں

خدا اس کو سدا پر نور رکھے
میں تارا جس نظر کا ہو گیا ہوں

دھرے جائیں گے سب الزام مجھ پر
میں حصہ ہر خبر کا ہو گیا ہوں

مجھے عیاریاں سب آ گئی ہیں
میں اب تیرے نگر کا ہو گیا ہوں

تری نظروں کے اک فرمان ہی سے
میں قیدی عمر بھر کا ہو گیا ہوں

مجھے اب عشق مٹی سے نہیں ہے
میں عاشق مال و زر کا ہو گیا ہوں

روایت چھوڑ بیٹھا ہوں میں اپنی
میں دشمن اپنے گھر کا ہو گیا ہوں

وہ جس کو شاعری کہتے ہیں عازمؔ
میں گھائل اس ہنر کا ہو گیا ہوں