کہ خود انسان ڈھلتا جا رہا ہے
کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا
سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے
نہ کچھ کہتا نہ کچھ سنتا ہے کوئی
فقط پہلو بدلتا جا رہا ہے
ادھر ملتی نہیں سانسوں سے سانسیں
زمانہ ہے کہ چلتا جا رہا ہے
نہیں اس کو کھلونوں کی ضرورت
وہ اب خود ہی بہلتا جا رہا ہے
مکانوں میں نئے روزن بنا لو
ہوا کا رخ بدلتا جا رہا ہے
نجیبؔ اب تو شرار بے حسی سے
ترا چہرہ پگھلتا جا رہا ہے

غزل
کہ خود انسان ڈھلتا جا رہا ہے
نجیب احمد