EN हिंदी
خواہشوں نے بنا وہ جال اب کے | شیح شیری
KHwahishon ne buna wo jal ab ke

غزل

خواہشوں نے بنا وہ جال اب کے

کمار پاشی

;

خواہشوں نے بنا وہ جال اب کے
بچ نکلنا ہوا محال اب کے

ڈوب جاؤں گا شب کے ساتھ کہیں
دیکھنا تم مرا کمال اب کے

میں نہیں تیرہ خاکداں میں کہیں
دل میں آیا یہ کیا خیال اب کے

یاد ماضی نہ خواب مستقبل
یوں ہوا ہے مرا زوال اب کے

چھوٹے جاتے ہیں ہاتھ سے پتوار
مجھ کو موج رواں سنبھال اب کے