EN हिंदी
خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو | شیح شیری
KHwahishon ki maut ka yaro bhala chaha karo

غزل

خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو

قیوم نظر

;

خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو
پھیلتی تاریکیوں میں چاند کا چرچا کرو

بے محابا جم ہی جائیں درد کی جب محفلیں
اپنے غم کو شہر بخت نارسا سمجھا کرو

لہلہاتی وادیوں سے خوب تر ہیں ریگ زار
دل کے صحرا میں گلستاں کی فضا پیدا کرو

رنج کی گہرائیوں کی تہہ کو پانے کے لیے
دوستوں کی دشمنی کو بھی عطا جانا کرو

عاقبت کی فکر نادانوں کا حصہ ہی سہی
عاقبت کے تذکرے پر برملا رویا کرو

تلخ تر ہو زندگی تو لطف دے شاید سوا
نا شناساؤں کی خاطر آشنا ڈھونڈا کرو

کیا سے کیا شکلیں دکھاتا ہے فریب آگہی
دشت امکاں سے کوئی ذرہ اٹھا لایا کرو

عظمت انساں کے دکھ میں گھل رہا ہے عہد نو
اس مسیحا کے لیے مل کر دعا مانگا کرو

خرچ اٹھتا ہی نہیں اور رنگ لاتا ہے غضب
بے گنہ کے خوں سے بھی قشقہ ذرا کھینچا کرو

خاک اڑتی ہے کہ روشن حسن کا آنچل ہوا
چہرۂ گیتی بہ صد بیم و رجا دیکھا کرو