خواہشوں کی بادشاہی کچھ نہیں
دل میں شوق کج کلاہی کچھ نہیں
کیوں عدالت کو شواہد چاہئیں
کیا یہ زخموں کی گواہی کچھ نہیں
صبح لکھی ہے اگر تقدیر میں
رات کی پھر یہ سیاہی کچھ نہیں
سوچ اپنی ذات تک محدود ہے
ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں
ظرف شامل ہے ہمارے خون میں
یہ تمہاری کم نگاہی کچھ نہیں
ہنس کے ملتا ہے عموماً وہ عظیمؔ
اس طرح جیسے ہوا ہی کچھ نہیں
غزل
خواہشوں کی بادشاہی کچھ نہیں
طاہر عظیم