EN हिंदी
خواہشیں دنیا کی بار‌ دوش و گردن ہو گئیں | شیح شیری
KHwahishen duniya ki bar-e-dosh-o-gardan ho gain

غزل

خواہشیں دنیا کی بار‌ دوش و گردن ہو گئیں

اوج لکھنوی

;

خواہشیں دنیا کی بار‌ دوش و گردن ہو گئیں
رفتہ رفتہ منزل عقبیٰ کی رہزن ہو گئیں

یہ ہوا کیسی چلی اس تنگنائے دہر میں
شہر جنگل ہو گئے آبادیاں بن ہو گئیں

چل سوئے گور غریباں اے حریص مال و زر
دیکھ کتنی آرزوئیں نذر مدفن ہو گئیں

کیسی رنگا رنگ شکلیں ہوں گی اے جوش بہار
مٹ کے جو گلگونۂ رخسار گلشن ہو گئیں

کھل نہیں سکتی کبھی کیفیت بغض و حسد
میری آہیں پردۂ ناموس دشمن ہو گئیں

میرے نغموں نے جو پائی قلب گلشن میں جگہ
شاخ گل پر بلبلیں بار نشیمن ہو گئیں

جب مرے نالے ہوئے قد صنوبر سے بلند
بلبلیں ساکت سر دیوار گلشن ہو گئیں

جامۂ ہستی ہوا صد چاک جب مثل سحر
زینتیں دنیا کی گردا گرد دامن ہو گئیں