خواہشیں اپنی سرابوں میں نہ رکھے کوئی
ان ہواؤں کو حبابوں میں نہ رکھے کوئی
چند لمحوں کا یہ جینا ہے غنیمت جانو
زندگی اپنی عذابوں میں نہ رکھے کوئی
آج ہر فرد ہے اک حسرت تعبیر لیے
اب خیالات کو خوابوں میں نہ رکھے کوئی
کام تحقیق کے عنواں پہ بڑھے گا کیسے
گر سوالوں کو جوابوں میں نہ رکھے کوئی
یہ بھی کیا ضد ہے کہ کانٹوں کو مہکنے دیجے
یعنی خوشبو کو گلابوں میں نہ رکھے کوئی
نیکیاں کتنی ہیں اعجازؔ حصار دل میں
خوبیاں ہوں تو خرابوں میں نہ رکھے کوئی
غزل
خواہشیں اپنی سرابوں میں نہ رکھے کوئی
غنی اعجاز