خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے
دل شمع کا جلتا ہے تب موم پگھلتا ہے
دیکھیں تو چراغوں کو اب کون بجھائے گا
طاقوں میں لہو اپنا ہر رات کو جلتا ہے
سوچا ہے کہ کچھ دن کو بیگانہ ہی بن جائیں
ہم اپنا جسے سمجھیں بیگانہ نکلتا ہے
اب سخت ضرورت ہے مے خانہ بدلنے کی
ہر لب کے لیے ساقی پیمانہ بدلتا ہے
جس راہ سے وہ گزریں ہر گام بہاراں ہو
اک جسم نہیں چلتا ماحول بھی چلتا ہے
اے دوست ترے در تک پھیلی ہیں کمیں گاہیں
دل ایک مسافر ہے گرتا ہے سنبھلتا ہے
ہم ہجر میں جب جاگے تھی رات بہت سیفیؔ
دیدار کا ہر موسم لمحات میں ڈھلتا ہے
غزل
خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے
سیفی پریمی