خواہش وصل نے عشاق کو رسوا رکھا
حسن نے دل کش و خوش رنگ سراپا رکھا
اپنے کردار کے داغوں کو چھپانے کے لیے
میرے اعمال پہ تنقید کو برپا رکھا
میرے ناکردہ گناہوں کی نمائش کے لیے
مجھ کو زنداں میں لگا کر بڑا تالا رکھا
صاف انکار نہ کرنے کے بدل ظالم نے
میری دل بستگی کو وعدۂ فردا رکھا
کون سی چیز گرانی کی بلندی پہ نہیں
خون ناحق مگر اس دور نے سستا رکھا
کر کے محروم انہیں آب رواں سے ہم نے
نام بے آب گزر گاہوں کا دریا رکھا
اپنے قد سے مرا قد دیکھا نکلتا جو طہورؔ
کر کے سر میرا قلم اپنا سر اونچا رکھا
غزل
خواہش وصل نے عشاق کو رسوا رکھا
رئیس الدین طہور جعفری