EN हिंदी
خواہش میوۂ تر ہو یہ ضروری تو نہیں | شیح شیری
KHwahish-e-mewa-e-tar ho ye zaruri to nahin

غزل

خواہش میوۂ تر ہو یہ ضروری تو نہیں

حادث صلصال

;

خواہش میوۂ تر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر کوئی خلد بدر ہو یہ ضروری تو نہیں

تیشۂ غم کو صنم سازئ ہستی سے غرض
سنگ وابستۂ در ہو یہ ضروری تو نہیں

میں ہوں آلودہ بہ خون جگر و خاک جہاں
وہ تری راہ گزر ہو یہ ضروری تو نہیں

کچھ جمال کم و کج بینئ خوش چشم بھی ہے
سب ترا حسن نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

اے ہنر مند جراحت طلب خامہ تجھے
دعوئ‌‌ زخم ہنر ہو یہ ضروری تو نہیں

راندۂ‌ حلقۂ آغوش پس اندیش جمال
تیرا منظور نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

لفظ سر میں مرے اعراب طراز مخلص
زیر کی جا پہ زبر ہو یہ ضروری تو نہیں

یہ بھی ملزوم نہیں تو ہو گرفتار خرد
مجھ کو بھی اپنی خبر ہو یہ ضروری تو نہیں

بعد تقریب‌ تمنائئ نظارۂ طور
طاقت و تاب نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

عالم بے خودئ عشرت بے غایت ہے
روح مسرور مگر ہو یہ ضروری تو نہیں

ہے مئے شوق میں آمیزش تلخاب گماں
پھر بھی تخفیف اثر ہو یہ ضروری تو نہیں

دل بہ افزائش خوددارئ آہنگ سخن
خائف‌ اہل نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

پیرئ عشق سے ہوں صحت معشوق شکار
دل توانائے جگر ہو یہ ضروری تو نہیں

صورت قرب مسلسل بھی نکل سکتی ہے
بام پر عمر بسر ہو یہ ضروری تو نہیں

بس کہ اک وسوسۂ برگ خزاں دیدہ ہے
خلد‌ امکاں میں شجر ہو یہ یہ ضروری تو نہیں

انحصار غم ہستی بہ غم مرگ ہوس
حادثؔ خاک بسر ہو یہ ضروری تو نہیں