خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے
گھر کو بننے نہیں دینا کبھی بازار مجھے
میں اسے دست عدو میں نہیں جانے دوں گا
سر کی قیمت پہ بھی مہنگی نہیں دستار مجھے
میں جو چلتا ہوں تو آنکھیں بھی کھلی رکھتا ہوں
اتنا سادہ بھی نہ سمجھیں مرے سالار مجھے
پھر توازن میں رہے گی مری ناؤ کب تک
جب ڈبونے پہ تلے ہیں مرے پتوار مجھے
یا زمانہ مری تقلید میں آ نکلے گا
یا کہیں کا نہ رکھیں گے مرے معیار مجھے
اب مرا ہجر مجھے ساتھ لیے پھرتا ہے
جائیے اب کوئی ساتھی نہیں درکار مجھے
اس طرح سوچتے رہنا نہیں اچھا شہزادؔ
فکر صحت ہی نہ کر دے کہیں بیمار مجھے

غزل
خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے
شہزاد قمر