خوابوں کی طلسماتی گپھاؤں سے نکل کے
دیکھو کبھی ویرانۂ جاں آنکھ کو مل کے
ہر لمحہ ہے اک آئنۂ عمر گذشتہ
پیشانیٔ امروز پہ بھی زخم ہیں کل کے
طے ہو نہ سکا مرحلۂ دشت تمنا
دیوار بنی پاؤں کی زنجیر پگھل کے
اک روز تو یہ دل کی تڑپ لب پہ بھی آئے
اک روز تو یہ ساغر لبریز بھی چھلکے
دیکھا جو کبھی دل کے دریچے میں سمٹ کر
صدیاں ملیں سمٹی ہوئی آغوش میں پل کے
ہیجان سے ہیں گونجی ہوئی دھیان کی گلیاں
دل میں اتر آئے ہیں نگاہوں کے دھندلکے
خاورؔ ابھی کچھ یاد کی شمعیں ہیں فروزاں
روشن ہیں در و بام ابھی میری غزل کے

غزل
خوابوں کی طلسماتی گپھاؤں سے نکل کے
خاور رضوی