خوابوں کی لذتوں پہ تھکن کا غلاف تھا
آنکھیں لگیں تو نیند کا میدان صاف تھا
دیوار دل سے اتری ہیں تصویریں سینکڑوں
پسماندہ خواہشوں سے اسے اختلاف تھا
دیکھا قریب جا کے تو شرمندگی ہوئی
چہرے پہ اپنے گرد تھی آئینہ صاف تھا
اب کے سفر میں دھوپ کی دریا دلی نہ پوچھ
اور سایۂ شجر سے مرا اختلاف تھا
غزل
خوابوں کی لذتوں پہ تھکن کا غلاف تھا
سلطان اختر