خوابوں کی کائنات میں کھونے نہیں دیا
تیرے خیال نے مجھے سونے نہیں دیا
گردش میں رکھا تیری کشش نے مجھے سدا
اب تک کسی ٹھکانے کا ہونے نہیں دیا
ہر معرکے سے زیست کے نکلا ہوں سرخ رو
بس یہ کہ دل میں خوف سمونے نہیں دیا
زخموں سے تھا نڈھال مگر موج وقت کو
چاہت کا نقش سینے سے دھونے نہیں دیا
اک حادثے کی یاد نے دل کی زمین میں
خواہش کا تخم پھر کبھی بونے نہیں دیا
کاشفؔ کمال ضبط نے رکھا مرا بھرم
ظالم کے سامنے مجھے رونے نہیں دیا
غزل
خوابوں کی کائنات میں کھونے نہیں دیا
کاشف رفیق