خوابوں کے صنم خانے جب ڈھائے گئے ہوں گے
اس دور کے سب آزر بلوائے گئے ہوں گے
تو بھی نہ بچی ہوگی اے عافیت اندیشی
ہر سمت سے جب پتھر برسائے گئے ہوں گے
پھر اس نے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہوگا
پھر لوگ مسائل میں الجھائے گئے ہوں گے
ہم گزرے کہ تم گزرے یہ دیکھنے کون آتا
تھے جتنے تماشائی سب لائے گئے ہوں گے
یاران قدح سے کچھ لغزش بھی ہوئی ہوگی
دانستہ بھی کچھ ساغر چھلکائے گئے ہوں گے
افضلؔ کا مقدر ہے حق گوئی و رسوائی
سچ بات کہی ہوگی جھٹلائے گئے ہوں گے
غزل
خوابوں کے صنم خانے جب ڈھائے گئے ہوں گے
اعزاز افصل