EN हिंदी
خوابوں کے ساتھ ذہن کی انگڑائیاں بھی ہیں | شیح شیری
KHwabon ke sath zehn ki angDaiyan bhi hain

غزل

خوابوں کے ساتھ ذہن کی انگڑائیاں بھی ہیں

حرمت الااکرام

;

خوابوں کے ساتھ ذہن کی انگڑائیاں بھی ہیں
اک روشنی بھی ہے کئی پرچھائیاں بھی ہیں

یہ کائنات خود بھی ہے اک پیکر جمیل
اور کچھ ترے جمال کی رعنائیاں بھی ہیں

ڈوبا ہوا ہوں قلزم آلام میں مگر
زیر قدم حیات کی پرچھائیاں بھی ہیں

جادو جگاتی رات کے سایوں کے آس پاس
لرزاں تمہاری یاد کی پہنائیاں بھی ہیں

آتا نہیں شباب یوں ہی کائنات پر
مصروف کار عشق کی برنائیاں بھی ہیں

شام بلا نہ مجھ سے چرا اس طرح نگاہ
تنہا نہیں ہوں میں مری تنہائیاں بھی ہیں

ہیں تیری انجمن میں ہمیں اک فسردہ دل
لیکن ہمیں سے انجمن آرائیاں بھی ہیں

حرمتؔ فقط بلندی احساس ہی نہیں
میری طلب میں روح کی گہرائیاں بھی ہیں