EN हिंदी
خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا | شیح شیری
KHwab ummid se sarshaar bhi ho jae to kya

غزل

خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا

مظفر ابدالی

;

خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا
دشت تو دشت ہے بازار بھی ہو جائے تو کیا

اب کہاں کوئی ستاروں کو گنا کرتا ہے
میرا ہر زخم نمودار بھی ہو جائے تو کیا

سو چکی شام اندھیرے کا ہے سایہ دل پر
آج خواہش کوئی بیدار بھی ہو جائے تو کیا

زندگی اپنی نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی
خاک پا زینت دستار بھی ہو جائے تو کیا

منزلیں بڑھنے لگیں خود ہی مسافر کی طرف
راستہ صورت دیوار بھی ہو جائے تو کیا