EN हिंदी
خواب تو خواب ہیں تعبیر بدل کر دیکھوں | شیح شیری
KHwab to KHwab hain tabir badal kar dekhun

غزل

خواب تو خواب ہیں تعبیر بدل کر دیکھوں

خالد جمال

;

خواب تو خواب ہیں تعبیر بدل کر دیکھوں
اس پہیلی کو ذرا میں بھی تو حل کر دیکھوں

اپنے چہرے کی لکیروں سے پریشان نہیں
زخم تازہ ہے سو آئینہ سنبھل کر دیکھوں

رنگ اور نور سے حیران ہیں آنکھیں میری
ان مناظر کو ذرا دور سے چل کر دیکھوں

ان فضاؤں میں بکھر جاؤں میں خوشبو کی طرح
اس چمن زار سے باہر بھی نکل کر دیکھوں

اب مری رائے سے تو اتنا بھی حیران نہ ہو
زاویہ ہے تو نہ کیوں اس کو بدل کر دیکھوں