EN हिंदी
خواب تو خواب ہے تعبیر بدل جاتی ہے | شیح شیری
KHwab to KHwab hai tabir badal jati hai

غزل

خواب تو خواب ہے تعبیر بدل جاتی ہے

تنویر احمد علوی

;

خواب تو خواب ہے تعبیر بدل جاتی ہے
دل کے آئینہ میں تصویر بدل جاتی ہے

اب صلیبوں پہ کہاں گل شدہ شمعوں کی قطار
آن کی آن میں تحریر بدل جاتی ہے

سر تو بدلے ہیں نہ بدلیں گے مگر وقت کے ساتھ
ظلم کے ہاتھ میں شمشیر بدل جاتی ہے

روز بنتا ہے کوئی آگ کے تیروں کا ہدف
ریت پر خون کی زنجیر بدل جاتی ہے

دل کے پتھر کی لکیریں تو نہیں مٹ سکتیں
کشش زلف گرہ گیر بدل جاتی ہے

تنکا تنکا ہے قفس بھی تو نشیمن کی طرح
ہاں فقط حسرت تعمیر بدل جاتی ہے

ان ہواؤں میں ہو دل کس کا نشانہ تنویرؔ
جب بھی دیکھو روش تیر بدل جاتی ہے