خواب تیرے ہیں یہ خوابوں کا نگر تیرا ہے
ذکر انفاس میں ہر شام و سحر تیرا ہے
جلوہ ہر گام سر راہ گزر تیرا ہے
آنکھ میری ہے مگر حسن نظر تیرا ہے
بے ارادہ جو اٹھے ہیں وہ قدم میرے ہیں
بے محابا جو گزرتا ہے سفر تیرا ہے
میری بے ربط دعاؤں کو رسائی دے دے
لفظ میرے ہیں مگر باب اثر تیرا ہے
زندگی کہتا ہوں میں جس کو زباں میں اپنی
وہ سفر میرا سہی اذن سفر تیرا ہے
سرحدیں ہیں مری نظروں کی یہ مہر و مہتاب
اور ان سے بھی جو آگے ہے وہ در تیرا ہے
نسل و مذہب کی کوئی قید نہیں ہے گوہرؔ
ذکر ہر لب پہ بہ الفاظ دگر تیرا ہے
غزل
خواب تیرے ہیں یہ خوابوں کا نگر تیرا ہے
گوہر عثمانی