خواب تعبیر میں بدلتا ہے
اس میں لیکن زمانہ لگتا ہے
جب اسے چاہتیں میسر ہوں
خود بخود آدمی بدلتا ہے
پہلے یہ دل کہاں دھڑکتا تھا
اب ہر اک بات پر دھڑکتا ہے
ہاں مری خواہشیں زیادہ ہیں
ہاں وہ اس بات کو سمجھتا ہے
سر بسر وصل کی تمنا میں
وہ بدن روح میں اترتا ہے
رات بھی بن سنور کے آتی ہے
دن بھی اترا کے اب نکلتا ہے
ہو کے صید غم جہاں یہ کھلا
غم سے اک راستہ نکلتا ہے

غزل
خواب تعبیر میں بدلتا ہے
یشب تمنا