خواب صحرا تری تعبیر نکل آئی ہے
کوئی وحشت ہے کہ جاگیر نکل آئی ہے
شاخ مژگاں کے پرندے ہیں یہ آنسو گویا
آب و دانہ لیے تقدیر نکل آئی ہے
خوں ابلتا ہے نکلتا ہے دھواں آنکھوں سے
دیکھ پانی کی یہ تحریر نکل آئی ہے
شہر اس طرح بیاباں میں گرا ہے جیسے
وقت کے پاؤں سے زنجیر نکل آئی ہے
زندگی تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا
کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے
رات ہے جسم ہے بستر ہے فلک پہلو میں
چاند نکلا ہے کہ شمشیر نکل آئی ہے
تیز لہروں میں سلامت نہیں کوئی خورشیدؔ
کس طرح حسرت تعمیر نکل آئی ہے
غزل
خواب صحرا تری تعبیر نکل آئی ہے
خورشید اکبر

