خواب میں تیرا آنا جانا پہلے بھی تھا آج بھی ہے
تجھ سے اک رشتہ انجانا پہلے بھی تھا آج بھی ہے
رنگ بدلتی اس دنیا میں سب کچھ بدل گیا لیکن
میرے لبوں پر تیرا فسانہ پہلے بھی تھا آج بھی ہے
اپنے دکھ سکھ کہہ لینا کبھی ہنس لینا کبھی رو لینا
تنہائی سے اپنا یارانہ پہلے بھی تھا آج بھی ہے
جس پنچھی کی پروازوں میں جوش جنوں بھی شامل ہو
اس کی خاطر آب و دانہ پہلے بھی تھا آج بھی ہے
راہ وفا میں پھول نہیں ہیں خار بہت ہیں ہستیؔ جی
پیار کا دشمن سارا زمانہ پہلے بھی تھا آج بھی ہے
غزل
خواب میں تیرا آنا جانا پہلے بھی تھا آج بھی ہے
ہستی مل ہستی