خواب میں بھی نہ کبھی ان سے ملاقات ہوئی
ہمیں حاصل نہ کبھی وجہ مباہات ہوئی
فکر فردا ہے کبھی رنج و غم دوش کبھی
کس قدر روح بشر مورد آفات ہوئی
خستہ حالی پہ مری ان کو بھی رونا آیا
بعد مدت مرے ویرانے میں برسات ہوئی
وجہ آشوب تمنا ہوا فکر جنت
وجہ آسودگیٔ روح مناجات ہوئی
تشنگی مٹ نہ سکی کام و دہن کی فارغؔ
زندگی مفت میں مرہون خرابات ہوئی

غزل
خواب میں بھی نہ کبھی ان سے ملاقات ہوئی
لکشمی نارائن فارغ