خواب میں بھی میری زنجیر سفر کا جاگنا
آنکھ کیا لگنا کہ اک سودائے سر کا جاگنا
اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے
انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا
بستیوں سے شب نوردوں کا چلا جانا مگر
رات بھر اب بھی چراغ رہ گزر کا جاگنا
آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سو جانا مرے دیوار و در کا جاگنا
پھر ہواؤں سے کسی امکان کی ملنا نوید
پھر لہو میں آرزوئے تازہ تر کا جاگنا
ایک دن اس لمس کے اسرار کھلنا جسم پر
ایک شب اس خاک میں برق و شرر کا جاگنا
اس کا حرف مختصر بیداریوں کا سلسلہ
لفظ میں معنی کا، معنی میں اثر کا جاگنا
بے نوا پتے بھی آیات نمو پڑھتے ہوئے
تم نے دیکھا ہے کبھی شاخ شجر کا جاگنا
یک بیک ہر روشنی کا ڈوب جانا اور پھر
آسماں پر اک طلسم سیم و زر کا جاگنا
غزل
خواب میں بھی میری زنجیر سفر کا جاگنا
عرفانؔ صدیقی