EN हिंदी
خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی | شیح شیری
KHwab ki rah mein aae na dar-o-baam kabhi

غزل

خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی

حسن نعیم

;

خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی
اس مسافر نے اٹھایا نہیں آرام کبھی

رشک مہتاب ہے اک داغ تمنا کب سے
دل کا نظارہ کرو آ کے سر شام کبھی

شب بخیر اس نے کہا تھا کہ ستارے لرزے
ہم نہ بھولیں گے جدائی کا وہ ہنگام کبھی

سرکشی اپنی ہوئی کم نہ امیدیں ٹوٹیں
مجھ سے کچھ خوش نہ گیا موسم آلام کبھی

ہم سے آواروں کی صحبت میں ہے وہ لطف کہ بس
دو گھڑی مل تو سہی گردش ایام کبھی

اے صبا میں بھی تھا آشفتہ سروں میں یکتا
پوچھنا دلی کی گلیوں سے مرا نام کبھی

ندرت فکر نے گر ساتھ جو چھوڑا تو نعیمؔ
اپنے سر لیں گے تتبع کا نہ الزام کبھی