خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی
اس مسافر نے اٹھایا نہیں آرام کبھی
رشک مہتاب ہے اک داغ تمنا کب سے
دل کا نظارہ کرو آ کے سر شام کبھی
شب بخیر اس نے کہا تھا کہ ستارے لرزے
ہم نہ بھولیں گے جدائی کا وہ ہنگام کبھی
سرکشی اپنی ہوئی کم نہ امیدیں ٹوٹیں
مجھ سے کچھ خوش نہ گیا موسم آلام کبھی
ہم سے آواروں کی صحبت میں ہے وہ لطف کہ بس
دو گھڑی مل تو سہی گردش ایام کبھی
اے صبا میں بھی تھا آشفتہ سروں میں یکتا
پوچھنا دلی کی گلیوں سے مرا نام کبھی
ندرت فکر نے گر ساتھ جو چھوڑا تو نعیمؔ
اپنے سر لیں گے تتبع کا نہ الزام کبھی
غزل
خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی
حسن نعیم