خواب اور خواب کا فسوں نہیں کچھ
آنکھ کھل جائے تو جنوں نہیں کچھ
حسن کہتا ہے بات کر مجھ سے
عشق کہتا ہے میں کہوں نہیں کچھ
اور کچھ چاہیے محبت میں
حالت حال دل زبوں نہیں کچھ
رائیگاں جا رہے ہیں نقش مرے
آئنہ خانہ ہی فزوں نہیں کچھ
تو بہت احتیاط کرتا تھا
تیرے ہاتھوں میں آج کیوں نہیں کچھ
آسماں یوں بھی ہم پہ گرتا ہے
سقف تو چھوڑیئے ستوں نہیں کچھ
اس نے ماتھے پہ ہونٹ رکھ کے کہا
آج یہ زخم نیلگوں نہیں کچھ
لوٹ آتی ہے وہ نظر خالی
کیا مری ذات کے دروں نہیں کچھ
کام سر پر پڑے رہیں اظہرؔ
اور میں بیٹھا رہوں کروں نہیں کچھ
غزل
خواب اور خواب کا فسوں نہیں کچھ
محمود اظہر