خواب ایسا بھی نظر آیا ہے اکثر مجھ کو
لگا جبریل کا شہ پر مرا بستر مجھ کو
اپنے مقصد کے لیے لفظ بنا کر مجھ کو
کوئی دوڑاتا ہے کاغذ کی سڑک پر مجھ کو
ڈس نہ لے دیکھو کہیں دھوپ کا منظر مجھ کو
تم نے بھیجا تو ہے بل کھاتی سڑک پر مجھ کو
سب کو میں ان کی کتابوں میں نظر آتا ہوں
لوگ پڑھتے ہیں ترے شہر میں گھر گھر مجھ کو
کیوں نہ گھبراؤں کہ تنہا ہوں گھنا ہے جنگل
دور سے دیکھے ہے سناٹے کا لشکر مجھ کو
کیوں نہ صحرا کو نچوڑوں کہ مری پیاس بجھے
دے گا اک قطرہ نہ کنجوس سمندر مجھ کو
نیند جب تک تھی مری آنکھوں میں محفوظ تھا میں
قتل لمحوں نے کیا خواب سے باہر مجھ کو
میری آنکھوں کے دہکتے ہوئے شعلہ پہ نہ جا
سرد کتنا ہوں سمجھ ہاتھ سے چھو کر مجھ کو
وہ پگھلتا ہے کہ شارقؔ مرا تن جلتا ہے
دیکھے رکھ کر کوئی سورج کے برابر مجھ کو
غزل
خواب ایسا بھی نظر آیا ہے اکثر مجھ کو
شارق جمال