EN हिंदी
خونیں گلاب سبز صنوبر ہے سامنے | شیح شیری
KHunin gulab sabz sanobar hai samne

غزل

خونیں گلاب سبز صنوبر ہے سامنے

شکیب ایاز

;

خونیں گلاب سبز صنوبر ہے سامنے
آنکھوں میں قید کرنے کا منظر ہے سامنے

فوج سیاہ چاروں طرف محو گشت ہے
خنجر برہنہ رات کا لشکر ہے سامنے

وہ سانس لے رہا ہے مگر زندگی کہاں
شیشے میں بند لاکھ کا پیکر ہے سامنے

اترا کے چل شعور کی ٹھوکر بھی کھا کے دیکھ
بے لمس آگہی کا وہ پتھر ہے سامنے

فطرت پہ یہ بھی طنز ہے شاید شکیب ایازؔ
پیاسی ہے ریت اور سمندر ہے سامنے